22nd January 2012, 07:54 AM
1
رستے جوان ہے۔۔۔محمدعلی وفا
کھندہر سا شہر ہو گیا رستے جوان ہے
ہے پرانی تختیاں سب اور نیے نام ہے
روتا رہا وہ باغ باں اُجڑی بہار پر
پتّے پتّے پر کُنندہ ایک بیان ہے
اُنکی نظر کا فاصلہ دوری نَ لا سکا
برسوں ہوئے اِس جخم کو پھر بھی جوان ہے
اب کیسے بُجھائےں اُسے کُچھ مشورہ تو دو
پانی میں لگی آگ اور اُسمین مکان ہے
ہونا تھا وہ ہو گیا اور ہم دیکھتے رہے
دینوں ایماں عزّت لوتی اور بھندھ زبان ہے
مظلوم ٹرپتا رہا دہلیز پر اُنکی
جان آخر دی جھاں دل کی دُکان ہے
1A
یے زندگی کا قافلہ ۔۔۔۔محمد علی ’وفا’’
سایہ ہماری رات کا پگھلا ہوا سا ہے
اپنا مقدّر بھی یہیاں بگڑا ہوا سا ہے
ٹُوٹی ہٰئ دوارکا سایہ غنیمت ہے
اپنا مکاں عرصہ ہوا اُجڑا ہوا سا ہے
شاید اُسے بھی مل گیا کوئ مہرباں
پلکوں اوپر پانی ذرا تھہرا ہوا سا ہے
ہر جائ منزلوں تلے تھہرے نہ کبھی ھم
یہ زندگی کا قافلہ اکھرا ہوا سا ہے
چلدو ’وفا’اس میقدہ سے دور ہی کہیں
شیشوں بھرا کردار بھی ٹوٹا ہوا سا ہے
1B
سودا نہیں کرتا۔۔۔محمد علی وفا
میں درد کو بازار میں بَیچا نہیں کرتا
جاگیر ہے یہ عمر کی سودا نہیں کرتا
فِسلا نہیں میں زندگی کے موژ پرکبھی
اُمّید کے خاڑوں پر رویا نہیں کرتا
عمرکا بہاو ہے جیسے بہے پانی
توٹی ہوئ مینہ سہی جوڑا نہیں کرتا
آزاد ہوں آزادی کا فندہ ہے گلے میں
میں ہر گلی میں آپکو دھُںدھا نہیں کرتا
بادل پر تو گھروںدے کیسے بنے وفا
میں ریت پر قصّہ کبھی لکھانہیں کرتا
2
گِلا تمسے نہیں ، اب تو رہا سارے زمانے سے
ہُےء سب خوش تصویر درد دیکھانے سے
یہاں پھرتے رہے ہم زخم اپنا چُھپاےء سے
کیا تشہیر کا سودا تونے کئ سو بہانے سے
ہماری رینگتی تنہائیوںکا حال نہ پوچھو
ہمارے باغ کا دامن بھڑا پایا ویرانے سے
کبھی پھاڑا غریباں کو کبھی خونِ جگر تپکا
گزرکیسے ہوئ پوچھو نہیں اب تو دہوانے سے
نہٰن منظور اب ہمکو ہمارے ظرف کا سودا
ملاہے یہ ہمیں جوہر ےہاں رب کے خزانے سے
ہمارے خون سے سینچا بڑی دقّت مُشقّت سے
گُلِستاں مِٹ نہیں سکتا باطل کے مٹانے سے
3
جام سےنکلے۔۔محمدعلی وفا
تمّناتھی کے قرع ہمارے نام سے نکلے
سبھی قطرے ہمارے خون کے اس جام سے نکلے
یہاں سُرج ہمارادوبتاہو اُن کی وادی میں
ادھر چاند اُنکا بس ہمارے بام سے نکلے
4
3 نایاب ھی نکلے ۔۔۔محمدعلیوفا
مفلس کے مقدر میں نایاب ھی نکلے
سب ستارے رات کو بتاب ھی نکلے
اکر سورج کی آنکھ میں زہر گھول دو
اس شہرکےسب بام سے ناساز ھی نکلے
تونے رچائ اب تلک خوب یہ سازش
مرجاے مزلوم نا کوئ بات ھی نکلے
اپنے سمجھ کے جنکو اپناےء تھے وفا
آستیں کے سب کے سب سانپ ھی نکلے
جس ِاینت پر ہم نے رچائ اُمّید کی منزل
وہ تووفا توتے ہوےء کچھ خواب ھی نکلے
ہو تا نہیں رفیق بھی خوش دیکھ کر وفا
پھر ہم رقیب سے کوئ اُمّید کیا رکھے
5
تقدیر کا شیشہ۔۔۔محمد علی وفا
رنگ بھی عجیب شئ ہے بدلا ہی کرتا ہے
دل کا بھی ایک رنگ ہے شکوہ ہی کرتا ہے
یہ لگے طاوص کے پر میں یا گرگت کے گلے
کوسینِ آب میں پڑا دھوکہ ہی کرتا ہے
چہرا بدلنے کی ضرورت ہے نھیں اُنکو
رنگ کا بادل ہے یہ پگھلا ہی کرتا ہے
افسوس کے سایہ تو گھتٹیں ہیں بژھٹیں ہیں
قسمت کا تارا بھی اُلجھاہی کرتا ہے
یہ سفر دو راہا ہے یک طرفہ نہیں ہے
چژہتا ہے جو اُپر اُترا ہی کرتا ہے
تدبیر کی تسبیح میں پِروتے رہو دانے
تقدیر کا شیشہ تو توٹا ہی کرتا ہے
6
دشمن بھی بدل دوں۔۔۔محمد علی وفا
چہرا بھی بدل دوں ، چلمن بھی بدل دوں
کیا کَہ رہےھو آج تم دشمن بھی بدل دوں
ہم تو کھلینگے سدا ،جنگل ہو یا صحرا
فطرت نہیں میری کہ گلشن بھی بدل دوں
بہتا رہا میں تو کبھی جنگل بیانباں میں
ممکین نھیں اے کہ پیرہن بھی بدل دوں
معصومیت کے برگ سے جسکا نکھار ہے
کس طرح ممکن ہے کہ بچپن بھی بدل دوں
میری وفا کا ساتھ رہےگا عدم میں بھی
میں وہ نہیں کے در کر مسکن بھی بدل دوں
7
*
شہیدانے یوکون کے نام۔۔۔۔۔محمدعلی ۔وفا
قربانیاں یہ آپکی ہرگیز نہ ھوگی رائگاں
ساغر ٹوٹیں ہیں کُچھ ہزارو میقدہ بن جائیں گے
جان دے دی آپنے راھ مین جاں جاناں کے اوپر
یہ شہادت آپکی منزل کا نشاں بن جائیں گے
چند دیے بجھ گےء کچھ غریب مکاں کے
ہزاوں گھروں میں ہدایت کے دیےء جل جائیں گے
*
8.
مستانے چل دےء۔۔۔۔محمد علی وفا
تیش دردوں کی بھرے پیمانے چل دےء
کھول کر اپنے جخم دیوانے چل دےء
سمت کا کچھ بھی ن تھا اُُن کو کوئ پتہ
دُھن میں اپنی کھڑے انجانے چل دےء
دور کچھ اپنے تماشہ بیں بن کر رہے
وقت کا خنجر چلا بیگانے چل دےء
ریت کا چھورا یپی چمکیلا سمندر
میکش رپے سر دھونتے میخانے چل دےء
اپنی خوشی سے آےہ تھے ن جاےنگے وفا
وقت کی چادر سمت مستانے چل دےء
9
بیمار تیرا دیکھ کر دستِ دُعا ہو جاءےگا
بیمار تیرا دیکھ کر دستِ دُعا ہو جاءےگا
ایک بار کا آنا تِرا بس دوا ہو جاءے گا
دِل کی یہ کشکول ہم نے کبھی کھولی نھیں
کویءھمیں دے نھ دے سبکا بھلا ہو جاءےگا
پھول پتھّر کانتے ھو یا بجلیوں کا خراج
جو بھی گیرےگا اس نشیمن پر ہوا ہو جاءےگا
یوں اشاروں کنایوں میں کہوگے کب تلک
جو زباں سے اپنی کہ دو گے تو کیا ہو جاءےگا
لوٹ لے جاو یہاں سے پھول پتّی شاخ و فل
یہ چمن اب کچھ دنوں میں ویراں ہو جاءےگا
شام کے کاندھے پہ رویا خُن کے آنسو سورج
طاریکیوں کی رات آےء گی تباھ ہو جاءےگا
ھمنے وفا وقت کی رسّی کبھی تھامی نہیں
کُچھ بھی کہیںگے زمانے سے گلاا ہو جاءے گا
Tarahi Misra:
جو زباں سے اپنی کہ دو گے تو کیا ہو جاءے گا
دردِ دل۔۔۔محمد علی وفا
دل بھرا ہے درد سے ِکسکو دکھایں چیر کر
ماملہ اپنے غمکا کیوں سناءے چینکھ کر
سب ہُےء مشروڑ جب سنا قصّہ غم
ایک چھوتی سی کہانی کیوںبڑہا یے کھینچ کر
جب سنبھل نا تھا ہمیں مانے نہیں اے دوستو
اب فسلتی راہ پرکیسےچلے ہم دیکھ کر
چار دیواری بنی قمت چکا کے بڑی
مل گیا گھرتو نیا گر زنگی کو بیچ کر
آنکھ کی قسمت کا تارا اب وفا چمکا سہی
مل گیا سرمہ کا پتّھر اب لگانا پیس کر
فریب کا بازار دیکھےء ۔۔محمدعلی وفا.
اُتھ گئ ہے آنکھ سے تلوار دیکھےء
بنتی ہے کسکے گلے کا ہار دیکھےء
. جب بھی ملے ہمیں بھُلے عُذَر وُ کہاں
اُنکا بِ مسالی یہ پیار دیکھےء.
راتیں بھی روتی رہی سایہ تلہ وہاں
دردوں سے بھرے چاند کا اسار دیکھےء.
اسود یہ مَلتا رَہا سورج لیل کو
اُسکی مکر فریب کا بازار دیکھےء.
کِس کِسکا شکوہ وفا کرتے ر ہیں یہاں
سب ہی یہاں پایے گےہ بمار دیکھےء
آئ نہ راس ہمکو۔۔محمدعلی وفا
آئ نہ راس ہمکو یہ موسم بہار کی
ہمتو غریب پتجہڑکے ویراں باغ میں پلے
ہمنے کہاں گل بھری کوئ شاخ بھی دیکھی
ہم تو دہکتی یہ صحر کی آگ میں جلے
.
کُہرام سے
کَیسے کٹی تیرے بغیر آرام سے
اب پی رہا ہہوں بس خیالی جام سے
میں کھو گیاتھا شہرکے صحرااوں میں
کسنے پُکارا آج مُجہکو نام سے
ہم تو چلے ٹہے بِنیازی چال سے
لو خواب کی چِریاں اُڑی ایک بام سے
لاوا بن کر چلا الل صُبح سورج
یہ تھم گیا تھک کر نشیلی شام سے
ترپا شہر بھیڑ کے صحرااوں میں
شور سرکوں پر ُاُگا کُہرام سے
خون کا چرچہ نہیں ہوا
شہرمیں خون کا چرچہ نہیں ہوا شاید
شوق خوں کشی ابھی پورا نہیں ہوا
سیہونیوں کی عادت ظلمت نہین جاتی
حیمیت کا عرب میں مُدّع نہیں ہوا
انسانیت کے باب سب بند ہو گےء
مسلم کیےنام کاابھی سودا نہیں ہوا
چاھے متادو چاہے اُسے بھاڑ میں دالو
دُنیا کی نظر میں کوئ رسوا نہیں ہوا
یہ گولیییاں بارود سب انکے لےء ھیں
یہ سوچتین ہیں انکا کوئ دلربا نہیں ہوا
ماردو بچُوں کو عورت کو جلادو
اہلے ایماں کادل ابھی زندہ نہیں ہوا
عربوں کے ھاتھ می پڑی سونے کی کنگنیں
اُنکا ابھی بھی خون پریشاں نہیں ہوا
ذلّت کے گھڑے میں ہے انکا مقُدر
کسی ایک کی آواز میں لرزاں نہیں ہوا
اتھو شباب عرب تم غیرت کی ہے پُکار
اس وقت جو سویا راھا دانہ نہیں ہوا
پُرانے جام پر ۔وَفا
قِسمت کِس کی تڑاشی تھی پُرانے جام پَر
پی گَےء سب مَیقَدے میں ایک تمہارے نام پَر
یہ شرارت آپکی بادل میں وابستہ رہی
گِررہی ے ِبجلِیاں ِدیکھو ہمارے بام پر
*
شکوہ پسند دِل کو اَب کون مناےء
ظالِمُ شَّفاک کو اب کون مِتاے۔
بیتہا دِےء ظالَم نےاب اَشقوں پر بھی پَہرے
ِکسکی مجال ہے کے ایک آنسو بہاےء
دارو رسن پر چَڑہ گیا اِک کلِمہ گو یارو
بیتہے ہیں سب اہلِ عرب اُنگلیآں دباےہ
غیَرت کا کوئ باب بھی باقی نہیں تُم میں
چَلتے ہو ناحق کی ایک ڈولی کو اُتھاےء
صَلاحُدّین کیا کوئ پیدا نہیں ہوگا
کمزوریےء ایمان کی جو زُلف سَواںرے
اولادے دجّالُ بُش بَیتھی ہے سینوں پے
اور پاس اب رَہ گَےء سَب کھوکھلے نارے
ہے،وَفاَ نادِمُ مغموم اور مَجبُر بھی بہُت
ربِّ کَریم ہے تُجھسے دُعاَ تو ہی بَچالے
*
خُنِ رواں دیکھا۔***۔محمد علی وفا
شدّتِ ِ پیاس بڑھاتے ہُےء صحرا دیکھا
نکلتا پہاڑسے دُبونے ہمیں دریا دیکھا
لذّتِ میکشی کا شوق تو تھا بھی کہاں
گےء جو میکدہ میں شور ایک بپا دیکھا
ملایا ھاتھ ہے اب رفیقوں۔رقیبوں نے
رنگ عدَُوت کا مہربانوں میں جواں دیکھا
مگسل میں تو اور مقتل میں بھی توہی رہا
نہ جانے دوست مینیں تُجھے کہاں کہاں دیکھا
بُزھ گیا آگ کا لاوا اِن آنکھوں سے وفا
پھر بھی جلتی ہُئ نبض پہ خُنِ رواں دیکھا
ہمارا تو چاہےء ۔۔ محمّدعلی وفا
کہنے کو بھی کوئ ہمارا تو چاہےء
تنکا ہی سہی کوئ سہارا تو چاہےء
حسرت بھری آنکھوں سے دیکھتیں رہیں
لوٹے ہوےء گلشن کا نذارہ تو چاہےء
مجھڈھار میں جانے کی ہمّت کہاں رہی
دوبے کہاں کوئ کنارا تو چاہےء
اچھّا ہوا یہ آپنے توڑے عہد پیماں
شکوہ کا کبھی کوئ اشارہ تو چاہےء
رنجش تو ہوئ ہےوفا گر بات کھل گئ
قسمت کے ھاتھ کا کوئ مارا تو چاہےء
جام سے نکلے_ محمد علی۔وفا
یہی تھی تمنُا قرُع ھمارے نام سے نکلے
ایک ایک قطرہ خون کا اس جام سے نکلے
سورج ہمارا دُبتا ہویہاں اُن کی وادی سے
اور چاند اُنکابس ہمارے بام سے نکلے
محمد علی۔وفا
|